بسم الله الرحمن الرحيم
بےجا ہنسی مذاق کا انسان کی شخصیت، اطرافیان، اور معاشرے پر اثر
:پس منظر
آپس میں ضرورت سے زیادہ ہنسی مذاق بڑھ جانے کے سبب استادِ محترم کی طرف سے ملنے والے اس موضوع پر مضمون تحریر کرنے کے ہوم ورک کی بدولت یہ کہانی وجود میں آئی۔ سُستی ایک بڑی نعمت ہے، اگر میں سُست نہ ہوتی تو کتابیں کھول کر پرانے لوگوں کے اقوال کے حوالے دے کر میں بھی ایک بورنگ سا مضمون ہی لکھتی۔
امید ہے یہ آپ کو پسند آئے گی، استاد کو تو آئ نہیں۔۔۔
❤️ اِنسپایرڈ باۓ لائف اوف ماۓ فرینڈز
تاریخ: 22/3/2022
:کہانی
ایک ہرا بھرا جنگل تھا جس میں سارے جانور اور ہنسی خوشی رہتے تھے۔ اِس جنگل کے ہر حیوان میں کوئی نہ کوئی کوئی خاص بات، کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود تھی جس بنا پر ہر کسی کو اُس کی لیاقتوں کے تحت کام دیا گیا تھا۔ اُن میں سے کوئی پروفیسر تھا تو کوئی ماہر نفسیات، کوئی کوئی مصور تو کوئی تاجر جبکہ کہ اُن میں سے کسی کو جنگل کی حفاظت کا بھی کام دیا گیا تھا۔ کیونکہ اِس جنگل کے خوبصورت جانوروں پر ایک بے رحم شکاری کی نظریں جمی ہوئی تھیں جو ان جانوروں کو شکار کرنے کی تاک میں لگا ہوا تھا۔ اب یہ کام کسی ایسے شخص کے حوالے کرنا تھا جو دور سے دیکھ کر ہی بتا سکے کہ کس وقت جنگل خطرے میں ہے اور کس وقت خطرے سے آزاد۔ لہاذا ذمہ داری بندروں کے ایک طاقتور ٹولے کو سونپی گئی جو درخت پر چڑھ کر پورے جنگل کو شکاری کے آنے کی اس وقت ہی خبر دے دیتے جب اس میں اور جنگل میں قدرے فاصلہ باقی ہوتا۔ صحیح وقت پر مطلع ہونے کے سبب سارے حیوانات خود کو اور اپنے ساتھیوں کو شکاری کے حملے سے بچا لیتے۔ اور اس طرح احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے سبب جنگل کسی بھی طرح کے بیرونی دشمن سے پوری طرح محفوظ تھا۔
ایک دن ڈیوٹی کے دوران دو بندر کیلے کھا رہے تھے، کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ اس وقت شکاری جنگل کی طرف نہیں آتا تھا۔ کھانا کھاتے کھاتے دونوں بندر اپنی اپنی زندگیوں کے دلچسپ واقعات ایک دوسرے سے شیر کر رہے تھے۔ دونوں میں دوستانہ تھا اور ایک دوسرے سے بے تکلف ہوکر ہنسی مذاق کرتے تھے۔ ایک بندر دوسرے بندر کو کچھ عرصے پہلے کی بات بتا رہا تھا کہ کیسے وہ درخت سے اترتے ہوئے پھسل کر زمین پر گیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے حلق میں کھانا اٹک گیا اور اس کے چہرے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے۔ اس کے ساتھی کو اپنے دوست کی بگڑی ہوئی شکل اور گرنے والی بات سے بے ساختہ ہنسی آگئی اور اس کا قہقہہ بلند ہوگیا جس کو سن کر وہ خود بھی ہنسنے لگا۔ دونوں اس شدت سے ہنسے کہ ان سے کچھ کہا بھی نہیں جا رہا تھا، ان کا خود پر قابو کم ہونے لگا جس کی وجہ سے وہ پھسلنے لگے، ایک دوسرے کو پھسلتا دیکھ کر ان کی ہنسی کی آوازوں میں اضافہ ہوگیا۔ پاس میں ایک گدھا سامان لوڈ کر رہا تھا، اس نے ان دونوں کو دیکھا اور وہ بھی ہنسنے لگا۔ ہنسی کے مارے اس کا سارا سامان پانی میں گر کر بہہ گیا، اس نے اپنے مال کو بچانا چاہا لیکن خود کو قابو نہ کر سکا، نہ ہی اپنی چیزوں کو۔ اس طرح ایک ایک کر کے سارے جانور زور زور سے ہنسنے لگے۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بھلا سب ہنس رہے کیوں ہیں لیکن ہنسی میں مست ہونے کی وجہ سے کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آیا۔ پورا جنگل قہقہوں کی آواز سے گونج رہا تھا چند سیکنڈوں میں ہیں حیوانوں کی جمع پونجی ضائع ہونے لگی لیکن سب محو ہو چکے تھے اور اپنی محنتوں کو اپنے سامنے زائل ہوتا دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کر رہے تھے۔
جنگل کے پاس، ایک درخت کے سائے میں سوتے ہوئے اس شکاری کو شور و غوغے سے آنکھ کھل گئی جو شکار کے لئے ایک اچھے موقع کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی شکاریوں کو بھی جگایا اور بنا سوچے سمجھے، موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگل پر حملہ کر دیا اور کچھ منٹوں میں ہی خوشحال اور ہرے بھرے جنگل کو ایک بھیانک قبرستان میں تبدیل کردیا۔ شکاری نے جانوروں کے سر کاٹ کر ان سب کو اپنے کلیکشن میں شامل کردیا اور اس کے اوپر ہرن کی خال سے یہ جملہ لکھا:
"بے جا ہنسی مذاق کے نتیجے میں گردنیں کٹ جاتی ہیں۔"
تاریخ: 17/1/2020
Comments
Post a Comment